تعارف انجمن ترقّیٔ اردو، برصغیر کا قدیم ترین ثقافتی و ادبی ادارہ ہے جو ۱۹۰۳ء میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی ایک شاخ کی حیثیت سے سرسیّد کے رفیقِ کار نواب محسن الملک نے قائم کیا تھا۔ اس کے بنیادی مقاصد اردو زبان و ادب کی ترویج، اشاعت، تراجم، تدریس اور تحقیق تھے۔ انجمن کے پہلے صدر اس وقت کے مشہور مستشرق سرتھامس آرنلڈ، معتمد علامہ شبلی نعمانی جب کہ دیگر عہدے داران میں مولوی نذیر احمد دہلوی، مولانا الطاف حسین حالی اور مولوی ذکاء اللہ تھے۔ سرپرستوں اور معاونوں میں قائداعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، شہیدِ ملت لیاقت علی خاں، سردار عبدالرّب نشتر، مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خاں، پیرالٰہی بخش، ڈاکٹر محمد شہید اللہ، سر غلام حسین ہدایت اللہ اور پیر حُسام الدین راشدی جیسے بزرگوں کے نام شامل ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق ۱۹۱۲ء میں انجمن کے معتمد ہوئے اور اس کا دفتر علی گڑھ سے اورنگ آباد لے گئے۔ پھر ۱۹۳۸ء میں وہ انجمن کا دفتر اور کتابوں کا بیش بہا اثاثہ دہلی لے آئے۔ ان کی سرپرستی میں انجمن نے نہ صرف غیرمعمولی ترقی کی بلکہ اس کی انتظامی بنیادیں بھی مضبوط ہوئیں۔ پاکستان بننے کے بعد قائداعظم محمد علی جناح کی ایما پر بابائے اردو اسے دہلی سے کراچی لے آئے۔ مولوی عبدالحق کی وفات کے بعد ۱۹۶۱ء میں جناب جمیل الدین عالی نے انجمن کے معتمد کی ذمے داری سنبھالی اور بابائے اردو کے مشن کو بہت خوش اُسلوبی سے جاری رکھا۔ انجمن نے قومی زبان کو اعلیٰ سطح پر تدریس کے لیے رائج کرنے میں جو ٹھوس بنیادی کام کیا، اس کے عملی نمونے وفاقی اردو کالج براے فنون، قانون اور سائنس کی تعمیر و قیام ہیں۔ اس کالج کو جناب جمیل الدین عالی کی کوششوں سے نومبر ۲۰۰۲ء میں وفاقی اردو یونی ورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ علمی و تحقیقی کتابوں کے علاوہ انجمن ادبی جریدہ ماہ نامہ ’’قومی زبان‘‘ اور تحقیقی مجلّہ شش ماہی ’’اردو‘‘ بھی شائع کرتی ہے۔