شو رانی دیوی
پریم چند گھر میں
منشی پریم چند اردو افسانے کا پہلا سب سے بڑا نام ہیں۔ انھوں نے اردو ادب کو سادہ اور دیہاتی ماحول کی کہانیوں سے مالامال کیا۔ یہ وہی ہیں جنھوں نے مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی المیے پر ڈراما "کربلا" لکھا لیکن بعض وجوہ کی بنا پر وہ پس منظر میں رہا۔ وہ ایک بہت بڑے انسان اور ایک بڑے لکھنے والے تھے۔ شو رانی ۱۹۲۴ء سے ایک لکھنے والی کے طور پر ہندی ادب میں ابھریں۔ انھوں نے کہانیاں لکھیں اور جب پریم چند رخصت ہوئے توان کی زندگی کے ان نامعلوم گوشوں سے پردہ اٹھایا جس سے ہم واقف نہ ہوتے اور ہمارے ایک بڑے ادیب کی زندگی کے ابواب نامکمل رہتے۔
“قائداعظم محمد علی جناح”
میں یہ واضح طور پر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہی ہوگی۔ کوئی دوسری زبان نہیں۔ ہر وہ شخص جو اس بات میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، یقیناً پاکستان کا دشمن ہے۔ ایک سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم نہ تو مربوط رہ سکتی ہے اور نہ اپنا کام خوش اسلوبی سے انجام دے سکتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی تاریخ پر نظر ڈال لیجیے۔ آپ کو خود ہی معلوم ہوجائے گا جہاں تک سرکاری زبان کا تعلق ہے، پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی۔
(دورۂ ڈھاکا کے دوران تقریر، ۲۲ مارچ ۱۹۴۸ء)
رسالے
تازہ ترین میگزین
تنقید اور جدید اردو تنقید
۲۱۶: صفحات
قیمت: ۵۰۰ روپے
ڈاکٹر وزیر آغا ایک مدّت سے اردو تنقید میں ایک مکتب کہلانے لگے ہیں۔ ان کا منفرد اندازِفکر و نظر اور موقف… اس خطبے میں بھی جھلکتا ہے جو بنیادی طور پر ایک تحقیقی جائزہ ہے۔ اس سے پہلے اس موضوع اور متعلقہ موضوعات پر چند کاوشیں اردو دانوں کے سامنے آچکی ہیں اب کے ڈاکٹر وزیرآغا کا زیرِنظر خطبہ شائع ہوتا ہے اردو تنقید پر کام کرنے والے اس سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں، لیکن جدّت، جدیدیت… اور خود تنقید… کیا ہے۔ اب یہ عنوان بجائے خود بڑے مباحث بن چکے ہیں۔
ڈاکٹر انور سدید
اشاعتی پالیسی براے کتب
صفحہ زیرِ ترتیب ہے